روس ازمنہ وسطٰی سے اسلام کے ساتھ اشتراک عمل کر رہا ہے۔ آج روس کے لوگوں میں دوسرا بڑا مقبول مذہب اسلام ہے، چنانچہ اس بارے میں استعجاب نہیں ہوتا کہ روس کے ادب میں اسلام کا اکثر ذکر ملتا ہے
سر اٹھاتی ہوں تو مجھے لگتا ہے یا واقعی یوں تھا کہ شہر کے افق پر مسجد کا ایک واضح مینار نمایاں ہو رہا ہے۔ نیلگوں اور سلیٹی کبوتر ہیں۔ پھر مجھے موذن کی صدا بھی سنائی دینے لگی"، 2010 میں روس کا ادبی اعزاز "ڈیبیوٹ" پانے والی مصنفہ تاتیانا مازیپینا اپنے مصر کے سفر نامے میں لکھتی ہیں۔
روس کے ادب میں اسلام کا عکس عرصہ دراز سے پایا جاتا ہے۔ کریمیا میں بخشی سرائے کا محل دیکھنے کے بعد الیکساندر پشکن نے 1820 میں لکھی اپنی نظم "بخشی سرائے کا فوارہ" میں مشرق کی کئی صفات کا ذکر کیا تھا جیسے سیاہ چشم خان، قالینوں سے مزین حرم، بروج اور خواجہ سرا، انگوروں اور گلاب کے پھولوں والے باغات.۔
(1837) میں جب شاعر میہائیل لرمنتوو قفقاز گئے تو انہوں نے "عاشق۔ غریب" کے عنوان سے کہانی لکھی جسے انہوں نے ترکی کی کہانی بتایا تھا۔ کہانی کے واقعات کا آغاز قفقاز سے ہوتا ہے جو جارجیا تک پھیلتے ہیں۔ اس کہانی کے اہم کرداروں میں امیر ترک تاجر، اس کی حسین بیٹی اور نادار عاشق غریب شامل ہیں جو ترک تاجر کی لڑکی پر عاشق ہوتا ہے.۔
(1837) میں جب شاعر میہائیل لرمنتوو قفقاز گئے تو انہوں نے "عاشق۔ غریب" کے عنوان سے کہانی لکھی جسے انہوں نے ترکی کی کہانی بتایا تھا۔ کہانی کے واقعات کا آغاز قفقاز سے ہوتا ہے جو جارجیا تک پھیلتے ہیں۔ اس کہانی کے اہم کرداروں میں امیر ترک تاجر، اس کی حسین بیٹی اور نادار عاشق غریب شامل ہیں جو ترک تاجر کی لڑکی پر عاشق ہوتا ہے.۔
انیسویں صدی کے اواخر کے روسی ادیب فیودر دستوییوسکی کی تحریروں پر بھی اسلام کے اثرات ہیں۔ اپنے فلسفیانہ ناولوں میں دستوییفسکی نے بارہا اسلامی تصوف سے رجوع کیا ہے۔ دستوییوسکی کو قرآن اور سیرت النبی میں دلچسپی تھی۔ ان کی لائیبریری میں قرآن کا نسخہ بھی شامل تھا۔ ادب سے متعلق شاموں میں وہ پشکن کی نظم " پیغمبر" بلند آواز میں پڑھنا پسند کرتے تھے، جو پیغمبر محمد صلعم سے منسوب ہے۔
1884 میں لیو تالستوئی نے اپنے خط میں لکھا تھا،" لبرل اور آزاد خیال لوگ مجھے دیوانہ جانتے ہیں، انقلابی اور بنیاد پرست مجھے درویش اور باتونی کہتے ہیں، سرکاری لوگ مجھے ضرر پہنچانے والا انقلابی خیال کرتے ہیں۔ قدامت پسند عیسائی مجھے شیطان سمجھتے ہیں۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ یہ سب میرے لیے تکلیف دہ ہے چناچہ مہربابی کیجیے اور مجھ میں ایک مہربان شخص کو دیکھیے جو محمد کی تعلیمات پر چلتا ہے، یوں سب کچھ بہت بھلا دکھائی دینے لگے گا۔
1884 میں لیو تالستوئی نے اپنے خط میں لکھا تھا،" لبرل اور آزاد خیال لوگ مجھے دیوانہ جانتے ہیں، انقلابی اور بنیاد پرست مجھے درویش اور باتونی کہتے ہیں، سرکاری لوگ مجھے ضرر پہنچانے والا انقلابی خیال کرتے ہیں۔ قدامت پسند عیسائی مجھے شیطان سمجھتے ہیں۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ یہ سب میرے لیے تکلیف دہ ہے چناچہ مہربابی کیجیے اور مجھ میں ایک مہربان شخص کو دیکھیے جو محمد کی تعلیمات پر چلتا ہے، یوں سب کچھ بہت بھلا دکھائی دینے لگے گا۔
چیچن سپہ سالار سے متعلق تالستوئی کے ناولٹ "حاجی مراد" میں کئی اسلامی اوصاف کا ذکر ملتا ہے۔ جب قارئیں شروع میں حاجی مراد سے متعارف ہوتا ہے تب " موذن کی مغنی صدا ابھی ابھی تمام ہوئی ہوتی ہے" اسے پہلا لفظ جو سننے کو ملتا ہے وہ "سلام علیکم" ہے۔ اس ناول کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والے رچرڈ پیور پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ حاجی مراد "تالستوئی کا نیا ہیرو ہے۔ محترم، مدبر اور متحرک جو ایک مسلمان کے طور پر اپنے فرائض کی تکمیل کرتا ہے اور بلا کم و کاست اپنے لوگوں کی روایات کا بھی امین ہے".۔
سوویت عہد کے ناولوں میں مذاہب کا ذکر کم کیا جانے لگا تھا پر ایشیائی کرداروں کو تب بھی مذہب سے وابستہ دکھایا جاتا تھا۔ کرغیز مصنف چنگیز آئتماتوو کی کتاب " صدیوں سے طویل دن" میں کزاخ ویرانے کو کائنات دکھایا گیا ہے جہاں ریلوے سے وابستہ مزدور بورانی ادیگی اپنے دوست کی لاش کی اسلامی اصولوں کے مطابق تدفین کرنے کی سعی کرتا ہے۔
ازبکستان کے ادیب حامد اسماعیلوو بھی اپنے ناول "راہ آہن" میں اسی طرح کے حقائق اور ثقافت کا سماں باندھتے ہیں۔ اسماعیلوو سمجھتے ہیں کہ سوویت ادیب آندرے پلاتونوو کے ناول "روح" کو ایک صوفیانہ کاوش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے اس کتاب میں مسلسل صوفیانہ اساطیر کا سہارا لیا ہے۔
Comments
Post a Comment
Thank your for talking to us